اس شرح کی چند خصوصیات جو قارئین کے ذہن میں رہنی چاہئیں درج ذیل ہیں:حدیث شریف پڑھانے کا پہلے سے جو طر...
اس شرح کی چند خصوصیات جو قارئین کے ذہن میں رہنی چاہئیں درج ذیل ہیں:حدیث شریف پڑھانے کا پہلے سے جو طریقہ چلا آ رہا ہے کہ مجتہدین کے مذاہب میں تقابل اور ترجیح قائم کی جاتی ہے، آپ کو یہ بات اس تقریر میں واضح طور پر نظر نہیں آئے گی۔ حضرت الاستاذ مد ظلہ اس کو پسند بھی نہیں کرتے ، وہ فرمایا کرتے ہیں کہ جب چاروں مذاہب برحق ہیں تو ان میں ترجیح قائم کرنے سے کیا فائدہ؟ حق بہر حال حق ہے اس میں تشکیک اور مراتب نہیں ہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اختلاف کی بنیاد نکھاری جائے کیونکہ مجتہدین امت کے سامنے سارے ہی دلائل ہیں ان کے سامنے ایک طرفہ دلائل نہیں ہیں ، پھر اختلاف کیوں ہوا؟ کوئی نہ کوئی وجہ ہوئی چاہئے ۔ یہی بات خصوصیت سے اس تقریر میں سامنے آئے گی جس سے دوسری کتا بیں خالی ہیں۔ بالفاظ دیگر : حضرت الاستاذ نے اختلاف ائمہ کے بجائے مدارک اجتہاد بیان کئے ہیں یعنی اختلاف کی بنیادیں بیان کی ہیں، پوری کتاب اس کی مثالوں سے بھر ہی ہوئی ہے ۔ جو مسائل معرکتہ الآراء ہیں ان میں بھی تقریر پڑھ کر آپ محسوس کریں گے کہ اختلاف ہونا ہی چاہئے تھا۔ بات ہی کچھ ایسی زوجہ ہے کہ ایک نقطہ پر سب مجہتدین کا جمع ہونا مشکل ہے، بہر حال یہ تقریر مناظرہ اور کشتی کا اکھاڑ نہیں ہے بلکہ ایک بہتا دریا ہے جس کی تہہ میں بے شمار موتی ہیں ان کا چنا ہی قارئین کی آخری تمنا ہونی چاہئے۔حضرت الاستاذ صرف مسائل ہی بیان نہیں کرتے بلکہ کتاب بھی پڑھاتے ہیں اور فن بھی سمجھاتے ہیں اور جو بھی کتاب پڑھاتے ہیں اس کا ایک ایک لفظ اصل فرماتے ہیں، کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں ہونے دیتے۔ گذشتہ سال پوری کتاب کی عبارت حضرت نے خود ہی پڑھی تھی تا کہ صحیح اعراب ریکارڈ ہو جائیں اور ترمذی شریف کی کوئی عبارت ایسی نہیں چھوڑی تھی جس کی وضاحت نہ کی ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ باتیں تقریر کے ضمن میں نہیں لائی جاسکتیں تھیں اس لئے احقر نے تقریر کے بعد ترمذی شریف کی عبارت صحیح اعراب کے ساتھ رکھی ہے پھر اس کا ترجمہ اور حضرت الاستاذ کی وضاحتیں درج کی ہیں۔ ان شاء اللہ اس سے طلبہ اور اساتذہ کو فائدہ پہنچے گا۔ترمزی شریف الجامع المعلل ہے یعنی جن حدیثوں میں علل خفیہ ہیں امام ترمذی رحمہ اللہ نے ان کو خاص طور پر واضح کیا ہے۔ سندوں کا اختلاف اور ترجیحات قائم کی ہیں جن کی وضاحت عربی شروحات میں بھی نہیں ہے، اس لئے اساتذہ ترمذی شریف پڑھاتے ہوئے ان ایجاث سے در گذر کرتے ہیں، وہ اس طرح ان مباحث سے گذر جاتے ہیں کہ گویا وہ لایعنی ہیں، حالانکہ یہی باتیں سن ترندی کی خصوصیات ہیں۔ اس شرح میں آپ کو اس موضوع پرسیر حاصل گفتگو ملے گی۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے حدیث کی کتنی سندیں پیش کی ہیں ان میں کیا فرق ہے، راج کی وجہ تریج کیا ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ کا فیصلہ صحیح ہے یا قابل غور ہے یہ سب باتیں مدلل و مفصل بیان کی گئی ہیں۔ حضرت الاستاذ صرف محدث ہی نہیں ہیں بلکہ فقیہ بھی ہیں چنانچہ ہر باب میں ضروری مسائل بھی بیان فرمائے ہیں۔ اور بالغ نظر مفتی وہ ہے جو عصر حاضر کے تقاضوں کو بھی ملحوظا ر کھے، چنانچہ مسائل کے بیان میں جابجا آپ کو یہ بات نظر آئے گی۔ ترمزی شریف کے ہندوستانی نسخہ میں عبارت قدیم طرز پر چھپی ہوئی ہے کچھ پتا نہیں چلتا کہ بات کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے۔ نہ ابواب پر کوئی نمبر ہے اور نہ حدیثوں کا کوئی شمار ہے۔ حضرت والا نے ترندی شریف کی ترقیم کر دی ہے۔ ابواب مسلسل نمبر ڈال دیئے ہیں، اسی طرح حدیثوں پر بھی نمبر ڈالے ہیں تا کہ حوالہ دینے میں اور مراجعت کرنے میں سہولت ہوں، حضرت الاستاذ نے مصری نسخہ کی ترقیم کی پیروی نہیں کی بلکہ نئی ترقیم کی ہے۔ نیز عبارتوں کو جدا جدا کیا ہے اس سے بھی ان شاء اللہ کتاب فہمی میں بہت مدد ملے گی۔ یہ اس شرح کے چند واضح امتیازات ہیں جو عرض کئے گئے ۔ ان کے علاوہ بھی قارئین بہت سی خوبیاں پائیں گے۔ مثال سلامت بیان، حسن ترتیب، واضح تعبیرات اور بلیغ اشارات قارئین کو محظوظ کریں گے پس یہ شرح قارئین کرام اور طلبائے عظام کے لئے ایک سوغات ( تحفہ) ہے جس کے ذریعہ حدیث کے حقائق و معارف کھلیں گےوما توفيقي إلا بالله عليه توكلتوإليه أنيب. وصلى الله على النبي الكريم وعلى آله وصحبه أجمعينحسین احمد بن حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری غفر له ولوالد یہ فاضل دارالعلوم دیوبند۴ رذی قعده ۱۴۲۷ - ۲۶ نومبر ۲۰۰۶ ء بروز اتوارTohfa tul Almaee Urdu Sharha Al Tirmizi By Maulana Mufti Saeed Ahmad Palanpuriتحفۃ الالمعی اردو شرح سنن الترمذی مولانا مفتی محمد سعید احمد پالن پوریTohfa tul Almaee Urdu Sharha Tirmizi تحفۃ الالمعی اردو شرح ترمزیDarja Samina (8th class) درجہ ثامنہ دورہ حدیثDarse Nizami book, درس نظامی کے کتبWifaqul Madaris وفاق المدارس